ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور وزیر انصاف نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے پس پردہ معروف مذہبی رہنما اور ’’خدمت تحریک‘‘یا’’ گولن تحریک‘‘کے بانی فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے اور فوجی بغاوت کرنے والے باغی ’’گولن‘‘ کی تعلیم سے متاثر تھے اور پنسلوینیا سے ہدایات لے رہے تھے ، لیکن دوسری طرف ’’خدمت تحریک ‘‘اور ترکی میں گولن کے ترجمان نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی تحریک کا اس فوجی بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ فتح اللہ گولن کون ہیں ؟ان کی تحریک کا مقصد کیا ہے ؟ اور وہ کس انداز میں کس طرح کی جدوجہد کر رہے ہیں ؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی فتح اللہ گولن پر تشدد تحریک چلا رہے ہیں ؟اور کیا واقعی ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے پس پردہ فتح اللہ گولن کا ہی ہاتھ ہے ؟
پولیس ،جمہوریت پسند فوج اور عوام نے حکومت کیخلاف سازش کو ناکام بنا دیا،فوج میں شامل غداروں کو ختم کر دیں گے : طیب اردگان
تر کی ایک عدالت نے چند ماہ قبل ترک صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف فتح اللہ گولن کی عدم موجودگی میں حکومت وقت کا تختہ الٹنے کے الزم میں ان کا ٹرائل شروع کر دیا تھا۔ 74 سالہ فتح اللہ گولن جو پچھلے پندرہ سال سے امریکا میں سیاسی پناہ گزین کے طور پر مقیم ہیں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے طیب اردگان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی تھی تاہم وہ بغاوت میں ناکام رہے تھے۔ ان پر کئی سابق پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مل کرایک دہشت گرد گروپ تشکیل دینے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ترک پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ فتح اللہ گولن اور دو سابق پولیس افسران کو عمر قید جب کہ ان کے 66 دیگر معاونین کو 7 سے 330 سال قید کی سزا کا حکم دے۔دوسری جانب فتح اللہ گولن نے اپنے خلاف عاید الزامات کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہنا تھا کہ وہ متعدد مرتبہ اصرار کے ساتھ یہ بات کہہ چکے ہیں انہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی سازش نہیں کی، ترک حکومت انہیں بلا جواز الزامات کے تحت مقدمات میں الجھا رہی ہے۔3 سال قبل بھی فتح اللہ گولن پر حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ ایک مرتبہ پھر ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ہونے والی فوجی بغاوت کا الزام بھی فتح اللہ گولن پر عائد کیا جارہا ہے ۔
ترکی کے انقلابی رہنما فتح اللہ گولن کی جائے پیدائش اناطولیہ میں واقع ایک چھوٹی سی بستی ’’کوروجک ‘‘ہے،جو صوبہ ارضروم کے شہر’حسن قلعہ‘کاایک نواحی علاقہ ہے،جس میں سال کے 9ماہ موسم سردرہتاہے۔گولن کے والداوروالدہ دونوں دین کی گہری بصیرت کے حامل تھے، گولن جن علمائے کرام سے متاثرہوئے ان میں سب سے نمایاں شخصیت شیخ محمدلطفی آلوارلی کی تھی۔21مارچ1971ء کو ترک حکومت نے فوجی دباؤکے نتیجے میں فتح اللہ گولن کو ایک خفیہ تنظیم کے ذریعے لوگوں کے دینی جذبات ابھار کر ملکی نظام کی اقتصادی،سیاسی اورمعاشرتی بنیادوں کوتبدیل کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا ۔ 6 ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد عام معافی کے قانون کے تحت رہاہوئے اورپھر سے اپنے فرائضِ منصبی اداکرنے لگے۔انہوں نے 1990ء میں ’’گولن تحریک کا آغاز کیا ،جس کی باز گشت نہ صرف ترکی بلکہ غیر ممالک میں بھی سنی جانے لگی ،گولن کا کہنا تھا کہ سویت یونین کی شکست وریخت اوروارشوپیکٹ کی ناکامی کے بعدعالمی طاقتوں نے اسلام اورمسلمانوں کوآسان ہدف سمجھ کران کے خلاف جنگ کوناگریزقراردے دیا ہے،یہ عالمی طاقتیں جہادکوبغاوت،جنگ کو سلامتی،ظلم کوانصاف اوربغض کومحبت کانام دیتی ہیں۔
فتح اللہ گولن کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 60سے زائد ہے، جن کا 35زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔فتح اللہ گولن اس وقت امریکی ریاست پنسلوینیا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی اپنے خطاب میں یہی الزام عائد کیا ہے کہ حملہ آور باغی فوجی ’’پنسلوینیا ‘‘ سے ہدایات لے رہے تھے ،ترک صدر کا اشارہ واضح طور پر فتح اللہ گولن کی طرف تھا جبکہ وزیر انصاف نے تو بغاوت کے ابتدا میں ہی گولن پر ہونے والی ’’فوجی بغاوت ‘‘ کا الزام لگا دیا تھا ۔پنسلوینیا میں رہائش پذیر گولن اکثر و پیشتر امریکہ کے مختلف اخبارات و جرائد میں مضامین لکھتے رہتے ہیں ۔ فتح اللہ گولن کا شمار ان پر اثر علمائے دین میں ہوتا ہے جو نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیا میں اپنی علمی و فلاحی خدمات کی وجہ سے ایک قابل احترام مقام رکھتے ہیں،سیکولر حکومتوں کے دباؤکا شکار رہے اور قید و بند کی صعوبتوں کے نتیجہ میں انہیں امریکہ میں سکونت
اختیار کرنا پڑی، ،ترکی کا سب سے بڑا اخبار ’’زمان‘‘ اور ٹی وی نیٹ ورک ’’سمن یوک ‘‘ بھی گولن تحریک کا ہے جس کے تحت سات دیگر چینل بھی چل رہے ہیں۔
دہشت گردی اور قتل و غارت کے خلاف فتح اللہ گولن کا موقف بڑا واضح ہے اور وہ دہشت گردی کا توڑ تعلیم کو قرار دیتے ہیں ،عالمی دہشت گرد تنظیم ’’داعش ‘‘ کے خلاف دوٹوک انداز میں فتح اللہ گولن کا اپنے لکھے جانے والے ایک مضمون میں کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب خود کو اسلامک سٹیٹ کہلانے والا ’’داعش‘‘ نامی ایک گروہ مشرق وسطیٰ میں تباہی و بربادی جاری رکھے ہوئے ہے، اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کا ہر عمل تما م مسلم دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے، جب مذہبی آزادی سلب کر لی جائے تو پھر ایمان اندھیروں میں پروان چڑھتا ہے اور غیر تعلیم یافتہ اور بنیاد پرستوں کے ہاتھوں تشریح پاتا ہے،عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ مسلمان حقیقی اور علامتی دہشت گردی کا شکارہیں۔حکومتوں کو ایسے بیانات اور اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جن کا نتیجہ مسلمانوں کی تنہائی کی صورت میں نکلے۔
فتح اللہ گولن کا کہنا تھا کہ ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہیں گے جو مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے، اسلام کے داغدار رخ کو بحال کرنا شاید انتہائی مشکل ہو مگر مسلمان اپنے معاشروں کو امن و سلامتی کی روشنی کے مینار بنا سکتے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے ایک عشرے تک اتحادی رہنے والے فتح اللہ گولن نے اردگان سے اپنے اختلاف کی وجہ بیان کرتے ہوئے امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے اتحاد کی بنیاد سیاست نہیں، اقدار ہیں، ہم جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے پر اردگان کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں اور جب بھی ہم نے محسوس کیا ہے کہ حکومتی اقدامات یا اصلاحات سے شخصی آزادی اور بنیادی حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں، تب مخالفت کی۔2010ء کے ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ 85 فیصد تھا، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ترک عوام جمہوریت اور اصلاحات دونوں کا احترام کرتے ہیں، ہم نے بھی ہر ایسے اقدام کو سراہا ہے جس کے نتیجے میں جمہوری اقدار مستحکم ہوتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کی ہر کوشش کا احترام کریں گے مگر ترک عوام کو گزشتہ دو برس کے دوران بعض معاملات میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت نے شخصی آزادی اور اظہارِ رائے پر پابندی لگائی ہے ، احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں سے بہتر طریقے سے نہیں نمٹا گیا۔ سویلینز کے ہاتھوں لکھا جانے والا جمہوریت نواز آئین شخصی آزادی اور حقوق کے حوالے سے اعلیٰ اقدار کا محافظ ثابت ہوسکتا تھا اور اس کے نتیجے میں زیادہ بہتری آتی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ایک اور انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ میری تحریک سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو دیتی ہے،تعلیم ہی کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ممکن ہے، میرے فکر و عمل سے متاثر ہوکر بہت سوں نے تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دی ہے، پہلے صرف مراعات یافتہ طبقہ ہی اپنی اولاد کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم دلا پاتا تھا، اب ایسا نہیں ہے،ترک معاشرے میں اس وقت تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ میں نے ترکی کے عوام کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ وہ ملک کے تمام اداروں میں اپنی نمائندگی یقینی بنائیں تاکہ ان کی کارکردگی سے یہ ادارے بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ترکی میں گولن سے متاثرہ لاکھوں افراد ’’ گولن تحریک ‘‘کے منصوبوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر عطیات دیتے ہیں اور ترکی کے عوام میں فتح اللہ گولن کی مقبولیت بڑی واضح ہے ،لہذا فوری طور پر ترک صدر اور اہم حکومتی وزیر کا فتح اللہ گولن پر ہونے والی ’’ فوجی بغاوت ‘‘ کا الزام عائد کر دینا قرین قیاس نہیں لگتا ۔
ترک صدر کو حالیہ بغاوت سے فوری طور پر نمٹنے کے لئے ہمیشہ کی طرح دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے عوام میں تفریق پیدا کرنے کی بجائے معاملات کو مزید الجھانے کی بجائے سلجھانا چاہئے،اگر فوجی بغاوت پر مکمل قابو پا لیا گیا تو گولن کی امن پسند تحریک سے وابستہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی بجائے بڑے تحمل ،بردباری اور باریک بینی کے ساتھ اس تمام سازش کی کڑیاں تلاش کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا ۔ترک حکومت کی جانب سے جلد بازی میں کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ دنیا کے دیگر شورش زدہ مسلم ممالک کی تعداد میں ایک اور مسلمان ملک کا اضافہ کر دے گا جو کسی صورت بھی ترکی اور مسلم امہ کے مفاد میں نہیں ہو گا اور اگر ایسا کچھ بھی ہوا تو ترکی کے ساتھ ساتھ یہ مسلم امہ کی بھی بد قسمتی ہو گی کیونکہ یہ وقت اختلاف کی بجائے اتفاق اور توڑ کی بجائے جوڑ کا متقاضی ہے ۔